فرقے اور فرقہ واریت
فرقے اور فرقہ واریت دنیا کے تقریباً تمام ہی مذاہب کیلئے ایک معمہ اور جھگڑے فساد کا سبب رہی ہے – تقریباً تمام ہی مذاہب میں فرقے اور ذیلی فرقے موجود ہیں – یہ سب ایک تاریخی مظہر ہیں اور تمام ہی تواریخ میں ان کا وجود نظر آتا ہے –
فرقے اور فرقہ واریت کم و بیش دنیا کے تمام مذاہب کیلئے ایک بڑا چیلنج رہی ہے- ان پر نہ صرف دانشوروں نے بحث و تمحیص کی ہے بلکہ یہ جھگڑے فساد کی و جہ بھی بنتے آئے ہیں – چنانچہ اسے اگر ایک تاریخی حقیقت بھی تسلیم کر لیا جائے تو کیا اس مسئلہ کو امن و آشتی کے ساتھ حل کیا جاسکتا ہے؟ یا پھر ہم صدیوں تک ان مسائل پراسی طرح ایک دوسرے سے جھگڑتے رہینگے؟
تاریخی لحاظ سے اگر دیکھا جائے تو مذہب / کمیونٹی کی جانب سے فرقوں کی مذمت ہی کی گئی ہے اور ان کے وجود کو منفی معنوں میں لیا گیا ہے- تاہم ، دور جدید کے بعد کی دنیا نے ایک متبادل طرز فکر اختیار کیا ہے اور بجائے اسکے کہ کسی خاص دور سے متعلق ایک معین نقطہء نظرکو اختیار کیاجائے، ان کی کثیرالطرفہ زاویوں سے تشریح کی جارہی ہے-
دور جدید کی دنیا میں بنیادی عقائد کی مختلف اور متبادل تشریح ، مذاہب کے ارکان، اقدار، مذہبی رسومات، ثقافت اور تاریخ کو کسی مذہب کی کمزوری نہیں بلکہ اس کا اثاثہ سمجھا جاتا ہے- مذاہب کی مختلف تشریح کرنے والوں سے نفرت نہیں کی جاتی بلکہ انھیں سراہا جاتا ہے ایک دوسرے سے رواداری برتنے اور ایک دوسرے کی تقریبات میں حصہ لینے کی ہمت افزائی کی جاتی ہے-
اگر ہم لفظ فرقہ، کو انحراف یا آزاد خیالی سے مراد لیں تو پھر ہمارے رویوں کا انداز بالکل مختلف ہوگا- تاریخ میں اسکی بہت سی مثالیں ملتی ہیں اور یہ بھی مختلف گروہوں کے درمیان فرقہ وارانہ جھگڑوں کی ایک وجہ رہی ہے –
اس رویہ کے نتیجے میں ایک فرقہ یہ دعویٰ کرتا ہے کہ وہی ” حتمی سچ ” ہے یا یہ کہ الله تعالیٰ صرف اسی کا حامی وناصر ہے ، اور صرف انہی کے فرقے کے لوگ جنت میں جائینگے اور باقی کا مقدر دوزخ ہے –
عموماً صرف اپنے فرقے کے لوگوں کو ہم مذہب ” بھائی ” جبکہ ” دوسروں ” کودشمن سمجھا جاتا ہے –
اس قسم کا رویہ رکھنے والے دوسروں کی توضیح و تشریح کو’ انحراف ‘ یا ‘ آزادخیالی ‘ ( سچے عقیدے سے انحراف) تصور کرتے ہیں – اس طرز فکر کو فرقہ بندی یا فرقہ پرستی سے تعبیرکیا جاسکتا ہے – اس طرز فکر کی بنیادی خصوصیت یہ ہے کہ وہ باقی سب سے الگ ہیں ( یاجیت یا ہارکی ذہنی کیفیت)
دوسرا رویہ وہ ہے جس میں دیگر فرقوں کے بارے میں سمجھا جاتا ہے کہ ان کے ” متبادل ” عقائد یا خیالات ہیں ( بشرطیکہ وہ انتہاپسند یا عسکریت پسند نہ ہوں ، اور تباہی کے راستے پر گامزن نہ ہوں) یہ رویہ ‘ دوسروں ‘ کی جانب مثبت طرز فکر کا حامل ہے –
مسلم معاشروں میں ‘ فرقہ ‘ کا لفظ مستعمل ہے جس کے لغوی معنی ‘ شاخ ‘ کے ہیں – یہ ایک طاقتور استعارہ ہے جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ اس کا تعلق ایک قوی الجثہ درخت سے ہے – ایک تنومند درخت جیسے جیسے بڑھتا جاتا ہے اس سے کئی کئی شاخیں پھوٹتی ہیں – اسی طرح ایک عظیم مذہب یا روایت کے بھی کئی مفہوم ہوسکتے ہیں – اگر کسی روایت کی تعبیرصدیوں تک ایک ہی مفہوم میں کی جائے تووہ ایک کمزور روایت ہوگی – ایسی صورت میں اسے درخت کی خوبی قرار نہیں دیا جاسکتا – یہ ایک متنازعہ سونچ ہوگی –
اگر ہم دنیا کے بڑے بڑے مذاہب کے پس منظر میں اس استعارہ کا جائزہ لیں تویہ ہمیں اوربھی خوبصورت نظر آئیگا – ان مذاہب میں بھی تقسیم عمل میں آئی اور ان کے بہت سے مفاہیم پیش کئے گئے اور ان میں سے ہر ایک اپنے لحاظ سے قابل قدر ہے – بہت سے مسلمان مفکروں اورصوفیائے کرام نے بھی مسلم معاشروں میں ہم آہنگی اوریکجہتی اورتنوع وگوناگونی کے معاملات پر دانشورانہ انداز میں غوروفکرکیا ہے – رومی نے اس مسئلہ پرمختلف زاویوں سے روشنی ڈالی ہے – اپنی مثنوی میں انہوں نے ایک ہاتھی اور نابینا انسان کا استعارہ استعمال کیا ہے جس کے ذریعے وہ ہمیں بتانا چاہتے ہیں کہ انسانی تجربات داخلی نوعیت کے ہوتے ہیں اور اسی لئے ضروری ہے کہ ہم دوسروں کے تجربات اور ان کی تشریحات کا احترام کریں –
خوش قسمتی سے دنیا بھر کے دانشور فرقوں کی تقسیم ( فرقہ واریت نہیں) کو مثبت انداز میں سمجھنا چاہتے ہیں – بہت سے دانشوروں کی کوشش ہے کہ نہ صرف مختلف کمیونٹیز کے اندربلکہ دیگر کمیونٹیز کے درمیان حائل خلیج کو پاٹا جائے ، بلکہ تہذیبوں کے درمیان فاصلوں کو بھی مٹایا جائے اور تواریخ اور روایت کاتجزیہ کرکے ایسی بامعنی افہام و تفہیم کو فروغ دیا جائے جس سے نہ صرف ایک مذہب کے مختلف فرقوں کے مابین بلکہ دیگر مذاہب کے ساتھ بھی مفاہمت پیدا ہو – ڈاکٹر فرہاد دفتری عصرحاضر کے ایک معروف مسلم دانشور ہیں اور وہ بجا طور پر اُمّہ کوتشریح و توضیح کی کمیونٹیز ( کمیونٹیز آف انٹرپریٹیشنز) کہتے ہیں – ان کا کہنا ہے کہ یہ کمیونٹیز ایک ہی عقیدے کی مختلف انداز میں تشریح کرتی ہیں جس کی بہت سی وجوہات ہیں جن میں سے چند تاریخی ، سیاسی ، معاشی اور ثقافتی نوعیت کی ہیں –
کسی نہ کسی سبب کی بنا پر ہر کمیونٹی کا تشریح کا اپنا انداز ہے۔ اس کا تعلق اس کے پس منظر سے ہے جب کہ سب کا ایمان ایک ہے – چنانچہ اس تنوع اور رنگارنگی کو ایک خوبی سمجھنے کی بجائے ہم چند سیاسی ، معاشی ، نسلی اور مقامی و علاقائی وجوہات کی بنا پر اس تنوع کو خرابی سے تعبیر کرنے لگے ہیں – ہم اس رویہ کے نتائج سے بھی آگاہ ہیں- لیکن خوش قسمتی سے تکثیریت کا نظریہ پھل پھول رہا ہے جس کے نتیجے میں فرقوں یا مذاہب کے درمیان تنازعات کو روکا جاسکتاہے – لیکن اس کیلئے ہمیں جہالت کے دروازوں کو بند کرنا ہوگا –
فرقوں اور مذاہب کے درمیان ہونے والی جنگوں کے نتیجے میں لاکھوں انسان اپنی زندگی سے ہاتھ دھو چکے ہیں اور اگر ہم اسی طرح ایک ہی مذہب یا مختلف مذاہب کی تشریح و تفہیم کے مسئلہ پر جھگڑتے رہینگے تو یہ بات افسوسناک ہوگی – ہمیں چاہئے کہ ہم ایک دوسرے کے ساتھ مل کر ان مسائل کو حل کریں ، اپنے وسائل کو مل جل کر استعمال کریں اور اپنے لوگوں کے معیار زندگی کو بلند کریں –
آج جب ہم یہ دیکھتے ہیں کہ مختلف فرقوں کے درمیان اور سرحدوں کے پار مختلف عقائد سے تعلق رکھنے والے لوگ اپنے عقائد کو رکاوٹ بنائے بغیر ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کر رہے ہیں تو ہماری امید کا چراغ روشن ہو جاتا ہے –
مختصر یہ کہ فرقے مسلم معاشروں کی چودہ سو سالہ تاریخ کا ناگزیر حصہ رہے ہیں – جو قدم ہمیں اٹھانا ہے وہ یہ ہے کہ ہم ایک مثبت رویہ اپنائیں جس کے نتیجے میں ہم میں یکجہتی پیدا ہوسکتی ہے اور ہم اسلامی عقائد کی مختلف تشریحات کا احترام کرنا سیکھ سکتے ہیں –
تاہم جس چیز کی حوصلہ شکنی کرنے کی ضرورت ہے وہ ہے فرقہ پرستی کیونکہ اس کے نتیجے میں ہم میں علیحدگی ، خودنمائی اور دوسروں کے خلاف جن کے عقائد ہم سے مختلف ہیں تشدد کے جذبات پیدا ہو سکتے ہیں-
جان عالم خاکی، ترجمہ: سیدہ صالحہ
http://www.dawnnews.tv/news/87587